Monday, May 30, 2011

میدانِ جنگ اور مسیحا

سجاد خالد، مئی، ۲۰۱۱


ہم زمین کے جس ٹکڑے پر رہتے ہیں یہاں ہزاروں برس سے خوشحالی کی کہانیاں سُنائی جا رہی ہیں۔ نہ کبھی رزق کی کمی کا ذکر ہوا اور نہ کبھی ترقی کا پہیہ رُکا۔ تہذیب اور کلچر کے تو اہم مراکز میں سے ہم ایک ہیں۔ یہ ہماری دولت ہی تو تھی جسے لوٹنے دنیا بھر سے جنگجو لٹیرے آ جایا کرتے تھے۔ سب سے آخر میں آنے والا برطانیہ یہاں سے صنعتی انقلاب کے لئے سرمایہ لے گیا اور عالمی جنگوں میں جھونکنے کے لئے کم تعلیم یافتہ لیکن صحت مند جوان بھی۔

یہ وہ فخریہ جملے ہیں جو برصغیر میں رہنے والوں کو سکھائے جاتے ہیں۔ لیکن کوئی انہیں یہ نہیں بتاتا کہ جب تمہارے پاس وسائل تھے تو اِس کے زمینی اسباب کیا تھے اور جب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا تو اُس کی کیا وجوہات تھیں۔

باقی رہی بات مسلم آبادی کی تو انہیں یہ کہہ کر جوان کیا جاتا ہے

تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاوں میں تاجِ سرِ دارا

روس نے اُنیس سو ستر کی دہائی میں افغانستان کا رُخ کیا تو بتایا گیا کہ اُس کا حقیقی حدف گرم پانیوں تک رسائی ہے۔ جب ہماری خوشی سے بے خدا چین کو یہ رسائی حاصل تھی تو روس کے معاملے میں کون سی بات الگ تھی؟ ایک تو یہ کہ وہاں الحاد کا جھنڈا نیا نیا لہرایا گیا تھا اور چین کے بارے میں ہماری معلومات اور یادداشت دونوں کمزور ہیں، دوسرا یہ کہ وہ سرمایہ داری نظام کا عملاً سب سے بڑا دشمن تھا جو سمندر کی گہرائیوں سے لے کر چاند کی غاروں تک اپنے دشمن کا تعاقب بھی کر رہا تھا اور کچھ میدانوں میں سبقت بھی لے گیا تھا جبکہ ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ہم سرمایہ داری نظام کے دُشمن ہیں۔ تیسرے یہ کہ خود افغانستان میں کوئی اسلامی حکومت نہ تھی بلکہ روس ہی کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی جس کی نظریاتی مخالفت ہم نے بحیثیت قوم کبھی نہیں کی تھی۔

آج امریکا کو دُنیا کا سب سے بڑا عفریت بنانے میں ہماری نادانی کو بھی دخل ہے۔ ہم چاہتے تو طاقت کا توازن برقرار رہتا۔ ہم سوچتے تو روس کے ساتھ بہتر تعلقات برقرار رکھتے ہوئے دعوتِ دین اور مکالمے کی فضاء قائم کرتے اور سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کے خلاف متحد ہوتے۔ ہمیں انتخاب یہ کرنا تھا کہ مادے پر سب انسانوں کے تصرف کا حق مانتے ہوئے انکارِ خدا کرنے والے زیادہ بُرے ہیں یا سرمائے کو حاکمیتِ اعلیٰ عطا کرنے والے منافقین زیادہ بُرے ہیں جو سرمائے پر سب انسانوں کےبرابر حق کو تسلیم بھی نہیں کرتے۔

اقتصادی میدان میں روس کو شکست دینے کے لئے امریکا کے لئے ضروری تھا کہ اُسے عالمی منڈیوں کی رسائی نہ حاصل ہو سکے اور قدرتی تیل کے ذخائر سے اُسے دور رکھا جا ئے۔ روس اور امریکا کی چو مکھی لڑائی میں میدانِ جنگ ہر وہ جگہ بنی جہاں وسائل تھے، اہم عالمی منڈی تھی یا اُس کی کوئی گزرگاہ۔

دولت کے لئے برصغیر پر حملہ کرنے کا جواز تو برطانیہ کے یہاں سے جانے کے بعد ختم ہو گیا تھا لیکن ابھی تین باتیں باقی تھیں۔ ایک یہ کہ ہم وسطِ ایشیاء کے ممالک یعنی سوویت یونین اور مشرقِ بعید میں چین کے لئے گرم پانیوں کی گزرگاہ پر بیٹھے تھے اور دوسرے یہ کہ کثیر آبادی اور بھوک کی وجہ سے سستے مزدور بن سکتے تھے۔ مزدوری میں فوجی مزدوری بھی شامل کر لیں تو بعد میں آسانی ہو گی۔ تیسرے یہ کہ اتنی بڑی آبادی جب ترقی یافتہ یورپ کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے گی تو نتیجتاً یورپی مصنوعات کی نقل پر تیار کی گئی غیر معیاری لیکن سستی صنعتی اشیاء کے لئے خود دُنیا کی سب سے بڑی منڈی ثابت ہو گی۔

افغانستان میں روس کی آمد سے پہلے ہی پاکستانی حکمرانوں نے اپنی اقتصادی، عسکری اور اخلاقی کمزوری کے ازالے کے ساتھ معاوضے اور سرمایہ داری نظام کی چمک دمک کے لالچ میں امریکا کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر دور اندیشی سے کوسوں دور رہنے والوں کو یہ خبر نہ تھی کہ میدانِ جنگ افغانستان تک محدود نہیں رہے گا۔ پاکستان دو دہائیوں کے اندر ہی میدانِ جنگ میں تبدیل ہو گیا ۔ فرق یہ تھا کہ روس کی جگہ چین نے لے لی تھی۔ اور وجہ بالکل واضح تھی کہ امریکا کو دور رکھنے کے لئے روس نہیں رہا تھا۔ چین کیونکہ براہِ راست تصادم سے بچ کر چلنے میں پرانا ماہر ہے اِس لئے اُس نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور عسکری امداد کے راستے گوادر کی بندرگاہ بنائی۔ امریکا اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لئے عربوں اور مقامی بلوچ قبائل کی مدد حاصل کرنے اور چینیوں کو پیش قدمی سے باز رکھنے میں کامیاب رہا۔

اگرچہ چین اور امریکہ دونوں اپنے نظریاتی مخالفین کو اپنے اپنے علاقوں میں اظہارِ رائے کی آزادی دینے کو تیار نہیں اور اُن کے سیاسی غلبے کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے میں تاک رہتے ہیں۔ اِس لئے اِن لوگوں کو شدت پسند اور دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ظلم کے ردِعمل کے طور پر اِن مخالفین نے بھی ایسے ہی راستے اختیار کیے ہیں جن پر انسانوں کا اجتماعی ضمیر مطمئن نہیں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اِس نام نہاد جنگ کے معاملےمیں چین اور امریکہ کے درمیان کوئی اُصولی اختلاف نہیں۔ اختلاف محض اُن گروہوں کے معاملے میں ہوتا ہے جن کو کوئی ایک فریق دوسرے کی کمزوری کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

عربوں کے سیاسی مسائل ہوں یا مشرقِ وسطیٰ کی دیگر مسلمان ریاستیں، وسائل اور منڈیوں کی اِس بندر بانٹ میں میدانِ جنگ بن گئی ہیں۔ اگر زیادہ تر مسلمان ممالک کا محل وقوع گرم پانیوں، اہم زمینی اور آبی گزرگاہوں ، تیل اور دیگر معدنی وسائل سے بھرے علاقوں میں نہ ہوتا تو مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے اور مفادات کی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ قرار دینے کا کوئی جواز نہ ہوتا۔

یہ خطہ طویل عرصے سے کسی راہنما کے انتظار میں ہے جو زمینی حقائق اور افراد کی صلاحیتوں سے یکساں واقف ہو۔جسے معلوم ہو کی انسانی گروہ کن بنیادوں پر ترقی کرتے اور کن اُصولوں پراُسے قائم رکھ سکتے ہیں۔ جو جانتا ہو کہ امن قائم کر کے کیسے جیا جا سکتا ہے۔ایک ایسا راہنما جو اپنی جغرافیائی پوزیشن سے مثبت فوائد حاصل کرنا جانتا ہے۔ جس کی نگاہ قدیم تاریخ سے مستقبل بعید تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو فرد اور قوم پر اثرانداز ہونے والے ہر اہم محرک کا طالبِ علم ہو۔

یہ راہنما کسی معجزے سے نہیں بنتے بلکہ انسانوں کی تربیت کے اچھے نظام سے تخلیق ہوتے ہیں۔ غور اِس بات پر کرنا ہے کہ انسانوں کی تربیت کیسے کی جائے کہ وہ اپنوں اور غیروں کے لئے یکساں مفید بن جائیں۔ اِس بات کا فیصلہ کہ کیا ہم اِس خطے کو میدانِ جنگ بنتا رہنے دیں یا نہیں اِس خطے میں بسنے والوں کو کرنا ہے اور اپنے مسیحا کی تخلیق کے لئے پہلا مدرسہ کھولنا ہے۔آج ہمیں راستے کا تعین کرنا ہے اور پہلا قدم اُٹھانا ہے۔ اِس بات پر بے عمل نہیں ہونا کہ ہمیں نتیجے کے لئے مطلوب وقت کا

اندازہ نہیں ہو سکا۔ جو لوگ اِس راستے پر چل نکلیں گے وہی اِس کے تقاضوں سے بہتر انداز میں باخبر ہوں گے۔

ہم جیسا مسیحا چاہتے ہیں ویسا ہی اُس کی تربیت کا بندوبست کریں گے۔ ہمارے سکول اور مدارس اگر ہمارے راہنما بنانے میں ناکام ہیں، ہمارے علماء اور مصلحین اگر دین و اخلاق کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، ہمارے قوانین اور اُن کے نفاذ کے ادارے اگر مجرموں کو روکنے اور اُن کی اصلاح کا فرض نہیں ادا کر سکے اور ہمارے مفکر اگر ذہنوں میں جنم لینے والے قدیم اور تازہ سوالوں کا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ہمیں سوچنا ہے۔ ہمیں کم سے کم یہ اطمینان تو ہو جانا چاہیے کہ ایسے لوگوں کی سرزمین کو میدانِ جنگ اور بالآخر قبرستان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر یہاں انسان زندہ رہے تو اپنی آزاد مرضی سے جینے کا حق کبھی نہیں حاصل کر سکیں گے۔ یہ جانور ہوں گے جن کی جبلتوں کے راستے جو بھی اُن پر کنٹرول حاصل کر لے گا اُسی کے کام آئیں گے اور اگر اور کچھ نہیں تو خوراک اور ایندھن بن جائیں گے۔

ہم کیسا مسیحا چاہتے ہیں۔ ہم نے کبھی سنجیدگی سے اِس کا تعین نہیں کیا۔ آئیے کچھ سوال کرتے ہیں۔ شاید یہ ہماری مدد کر سکیں۔

  1. کیا ہم ایک قوم ہیں؟
  2. کیا موجودہ صورتِ حال ہمارے لئے قابلِ قبول ہے؟
  3. کیا ہم مسیحا کے انتظار میں ہیں؟
  4. کیا ہم میں مسیحا کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں؟
  5. کیا کوئی ایک انسان ہمارا مسیحا بن سکتا ہے؟ یا ہمیں اپنی ہر آئندہ نسل میں ہر شعبہ ء زندگی کے لئےمتعدد مسیحا درکار ہیں؟
  6. کیا یہ مسیحا آسمان سے نازل ہوں گے ؟ یا زمین پر انسانوں کے بنائے گئے کسی نظامِ تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوں گے ؟
  7. کیا خدا ایسی قوم کی حالت بدلنے میں مدد کرتا ہے جو اپنی حالت بدلنے کے معاملے میں مخلص اور باعمل نہ ہو؟

ہم نے جنگ شروع نہیں کی اور اگر کی ہے تو علم اور عقل کے خلاف۔ ہم نے سوال اُٹھانے والوں کو شک کی نظر سے دیکھا اور بے سوچے سمجھے تقریر کرنے والوں کو کندھوں پر بٹھایا ہے۔ ہم نے جذباتیت کو فہم و فراست پر ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ جس کا جی چاہا اُس نے ہمیں استعمال کیا اور جب چاہا بے وقعتی سے زمیں پر دے مارا۔کچھ لوگ ہماری جذباتیت سے خوفزدہ ہیں اور کچھ اِسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال میں لانا جانتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہمارا نقصان ہوتا ہے۔

یہ سوالات ہمیں سوچنے پر آمادہ کریں گے کہ ہم اپنے مسیحا کی آمد کا محض انتظار کریں یا اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کر کے اُنہیں مستقبل کے مسیحا بنا دیں۔

Monday, December 27, 2010

کاپی رائٹس اور تیسری دُنیا

کاپی رائٹس پر جب میری توجہ ہوئی تو مجھے ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اتنا عرصہ گذر گیا تھا جس میں میری پیشہ ورانہ ضرورت کی معلومات پر مبنی اکثر کتابیں اور سافٹ وئر زیرِ استعمال آ چکے تھے۔ میں جو اپنے ذہنی اور جسمانی کام کا معاوضہ لینا جائز سمجھتا ہوں اور کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ میرے کام سے میری شرائط کے برخلاف استفادہ کرے، یہ کیسے تصور کر سکتا تھا کہ دوسروں کے معاملے میں اِس ضابطے کی خلاف ورزی کرتا۔ میرے لئے عملاً یہ بھی ممکن نہ تھا کہ فوراً اپنے پیشے کے معاون سافٹ وئر خرید لوں۔ نتیجتاً میں احساسِ جرم کا شکار ہو گیا جس نے میرے تخلیقی وجود کے امکانات کو محدود اور مسدود کرنا شروع کر دیا۔

شروع میں میرا خیال تھا کہ تیسری دُنیا جس معاشی بدحالی کا شکار ہے اُس میں ان قوانین کےمعاملے میں نرمی ہونی چاہیے اور حکومتوں کو ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ جو ادارے سرمائے کے نقطۂ نظر سے مستحکم ہوں اُن کو کاپی رائٹس کے سلسلے میں نسبتاً زیادہ پابند کیا جائے ۔ اور ترقی یافتہ دُنیا کو کم از کم تیسری دُنیا کے معاملے میں ان قوانین میں سختی نہیں کرنی چاہیے۔ بہت جلد مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ اجازت دے کر وہ اپنے ہاں بھی قانون شکنی کا دروازہ کھول دیں گے۔ اور ایسا ہوا بھی نہیں۔

ترقی یافتہ اقوام جس تیزی سے مسابقت کی فضاء میں آگے بڑھ رہی ہے، اُس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ پیچھے مُڑ کر دیکھیں ، وہ یہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے والے پتھر کے بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ ایسی راہ بھی اختیار نہیں کریں گے جو اُن کے سرمایہ دارانہ مفادات کو زد پہنچائے۔

اب سوال یہ ہے کہ میں جس احساسِ جرم کا شکار ہوں، مجھے خود کو اُس سے نکالنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ میرے ذہن میں اس کے متعدد جواب آرہے ہیں، مثلا ً

1. تمام غیر قانونی ذرائع کو فوراً چھوڑ دینا چاہیے، جس کے نتیجے میں مزید معاشی بحران کا شکار ہو جاوں گا۔

2. تمام غیر قانونی ذرائع یہ سمجھ کر استعمال کروں کہ ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کا عظیم قلعہ استعمار کا نتیجہ ہے اور مجھے کم از کم اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے احساسِ جرم کے بغیر ایسا کرنا ہو گا۔ اس طریقے میں مجھے بس اتنی احتیاط برتنی ہو گی کہ میں کوئی ایسا اقدام نہ کروں جس سے میں قانون کی زد میں آ سکوں۔ مزید یہ کہ مجھے یہ رویہ اپنے ملک یا تیسری دُنیا کے معاملے میں نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہاں ہونے والے تخلیقی یا تحقیقی کام کے کاپی رائٹس کی حفاظت میری ذمہ داری میں شامل ہے۔

3. مجھے ایسے متبادل ذرائع ڈھونڈ کر استعمال کرنے چاہیے جو مفت دستیاب ہوں۔ اِس طریقے سے میں قوانین کی زد میں آئے بغیر اور کسی احساسِ جرم کی غیر موجودگی میں اپنی ترقی کا عمل بھی جاری رکھ سکتا ہوں۔ یہ طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ کچھ تلاش اور تجربے کے بعد ہماری ضرورت کا اکثر مواد اور سافٹ وئر میسر آ سکتا ہے۔ اب بہت محدود تعداد میں ذرائع رہ جائیں گے جن کے لئے کسی کو قانون شکنی کرنی پڑے اور یہ ذرائع میری معلومات کی حد تک بڑے اداروں کی ضرورت ہیں جو قوتِ خرید بھی رکھتے ہیں۔

ترقی یافتہ اقوام میں انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے حساس افراد بھی ہیں اور وہ جدید تعلیم اور ہنر سے لیس ہونے کی وجہ سے ہم سے کہیں زیادہ موثر کام کر رہے ہیں۔ ان کاموں سے استفادے کے لئے ہمیں دو بنیادی ہنر آنے چاہییں، پہلا انگریزی زبان سے درمیانے درجے کی واقفیت اور دوسرا انٹرنیٹ کا بہتر استعمال۔ پاکستان میں میٹرک پاس افراد بھی یہ دونوں صلاحیتیں آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات اُصولی طور پر ماننی ہو گی کہ کاپی رائٹس کا قانون درست ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ قوانین سے صرف طاقتور ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، خواہ وہ اقوام ہوں، مما لک ہوں، ادارے ہوں یا افراد۔

سمجھدار شخص وہی ہوتا ہے جو اپنے راستے میں آنے والے مشکلوں کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تیسری دُنیا کے لوگوں کو ترقی یافتہ اقوام کے حساس افراد کی مدد حاصل کر کے بغیر کسی احساسِ جرم کے اپنے لئے بہتر کل تخلیق کرنا ہو گا ۔

Monday, December 06, 2010

اندر کا انسان

زندگی کا بڑا حصہ غور و فکر میں گذرا اور مذہب، ادب، معاشرہ، سیاست، ریاست اور فلسفے سمیت درجنوں موضوعات پر اہل علم کو پڑھا، سُنا اور مذاکروں میں شرکت کر کے بات کو سمجھنے اور آگے بڑھانے کی مسلسل کوشش بھی کی۔ میرا خیال ہے اِس ساری کوشش میں ہم انسان کے بنیادی المیے پر بہت کم گفتگو کر سکے اور شاید اِس کا کھوج لگانے کے لئے ہمیں اُن تمام موضوعات کو زیرِ بحث لانا ضروری تھا۔

وہ بنیادی المیہ یہ ہے کہ بحیثیتِ مجموعی انسان اپنے اندر سے خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ عدم تحفظ کے احساس نے اُسکے ذہن کو آلودہ کر دیا ہے ۔ لیکن عدم تحفظ کے احساس کو بڑھانے والے اخلاقی ، معاشرتی اور سیاسی قوانین پر عمل کرنے کو بظاہر تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان وقوانین پر عمل نہ کر پانے کی وجہ سے ہر شخص احساسِ جرم کے ساتھ جیتا ہے۔ یہ دونوں احساسات یعنی عدم تحفظ اور جرم اُسے ہر لمحہ بے سکون رکھتے ہیں اور یہ بے سکونی اُس کے تخلیقی وجود کو منفی سمت میں کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ میرے خیال میں صرف احساسِ تحفظ ہی ہے جو انسان کی تخلیقی صلاحیت کو مثبت سمت میں بڑھاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تحفظ کا یہ احساس کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟

انسان میں احساس تحفظ پیدا کرنے سے بڑا چیلنج شاید ہی سوچا جا سکتا ہو، [کم از کم میری ذات کی حد تک]۔ یہ خواب صحیح سمت میں صدیوں مسلسل سفر کے بعد تعبیر ہو سکتا ہے، جلد بازی اس ت...عبیر کو ہم سے دور تر کرتی چلی جاتی ہے۔ آج کا سوال یہ ہے کہ آغاز کہاں سے کیا جائے؟

Tuesday, August 10, 2010

پانچ روگ‘ ایک انوکھا کامیاب ٹوٹکہ

پانچ روگ‘ ایک انوکھا کامیاب ٹوٹکہ
قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں(ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)

اس ترقی یافتہ دور میں جب جسم کی رگ رگ کو آپ مشین پر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں ۔ آخر کیوں وہی جسم پھر بھی تندرست نہیں ہوتا۔ کتنے مریض ایسے ہیں جو کئی سال علاج کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر بڑے سے بڑا معالج یہ کہہ کر علاج ختم کر دیتا ہے کہ آپ کو دعا کی ضرورت ہے یا تشخیص میں غلطی ہو گئی تھی۔ زیر نظر ایک ایسے ٹوٹکے اور آسان عمل کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو کرنے میں نہایت آسان اور نتیجے میں حیرت انگیز نتائج کا حامل ہے۔ آپ جب اس کی وضاحت اور تفصیلی فوائد پڑھیں گے تو احساس ہو گا واقعی یہ ایک لاجواب تجربہ اور اچھوتی تحقیق ہے۔
(1) ایک صاحب حیران اور پریشان ہیں کہ مجھے کالا یرقان یعنی ہیپا ٹائٹس ہو گیا ہے ‘ کئی رپورٹس کرائیں ہر جگہ کالایرقان ہی نکلا پھر انجکشن لگوائے‘ بڑے مہنگے اور قیمتی انجکشن لگوائے لیکن فائدہ نہ ہوا۔ موصوف کوئی آسان اور بہتر طریقہ کے ذریعے علاج چاہتے تھے کہ میرا علاج ہو جائے ۔ انہیں یہ گھوٹہ استعمال کرنے کو عرض کیا۔ چند ہفتے کے استعمال سے ایسے صحت مند اور گلاب کے پھول کی طرح ہوئے کہ جیسے پہلے کچھ تھا ہی نہیں۔ ہر رپورٹ بالکل نارمل آئی ۔ ملنے والوںمیں سے ایک انسان دوست شخص سے ملاقات ہوئی کہنے لگے میں نے اس گھوٹے والے نسخہ سے اب تک 88 ایسے کالے یرقان کے مریض تندرست ہوتے دیکھے ہیں جو ہر طرف سے بالکل مایوس ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ عام یرقان ہو یا وہ مریض جن کو یرقان معمولی تھا وہ تو بہت جلد تندرست ہو گئے۔ حتیٰ کہ دوسروں کو کہا کہ واقعی یہ نسخہ لاجواب ہے ہر اس مریض کیلئے جسے کالا یرقان ہو یا پھر اس کا کالا یرقان بگڑ گیا ہو‘ حتیٰ کہ تلی کے بڑھنے اور بگڑنے میں فائدہ مند ہے۔ پھر کالے یرقان کی وجہ سے جو جسمانی کمزوری ہو گئی تھی اس میں بھی خاطر خواہ نفع ہوا۔ مسلسل کچھ عرصہ اس کا استعمال ہی آپ کو سو فیصد فائدہ دے سکتا ہے۔ بس ایک بار آزماکر دیکھیں ۔
(2) تھیلسیمیا یعنی وہ مریض جنہیں ہر ہفتے یا ہر ماہ خون کی بوتل لگتی ہے اور ان کا جسم خود خون بنانے کے قابل نہیں۔ اس مرض کاسوائے خون بنانے کے دنیا میں اور کہیں علاج نہیں ‘ خود مجھے بھی اس کا علم نہیں تھا کہ یہ گھوٹہ اس مرض میں فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک خاتون یہ گھوٹہ اس مرض کے لئے بتاتی تھی او رمیرے سننے میں 3 واقعات ایسے آئے جو بالکل تندرست ہو گئے اور کچھ واقعات ایسے آئے جنہیں فائدہ نہیں ہوا۔ بقول اس خاتون کے جنہیں فائدہ نہیں ہوا انہوں نے اعتماد‘ تسلی اور توجہ سے وہ دوائی یعنی گھوٹہ استعمال نہیں کیا۔ واقعی ایسا ہوا ان میں سے دو چار سے ملا تو انہیں بے یقینی اور بے توجہی کا شکار پایا ۔ پھر یہ گھوٹہ مستقل بے شمار لوگوں کو بتانا شروع کیا۔ جس نے بھی تھیلسیمیا میں اسے آزمایا اسے خوب سے خوب تر فائدہ ہوا اور چند ماہ کے متواتر استعمال سے مریض کو خوب نفع ہوا۔ آج بھی میرے نوٹس میں ایسے مریض ہیں جو ہر ماہ خون لینے کیلئے عاجز آ جاتے تھے ۔ جب انہیں یہ نسخہ یعنی گھوٹہ استعمال کرایا انہیں حیرت انگیز نفع ہوا ‘ بے شمار مائیں اپنے بچوں کی صحت یابی پر دعائیں دے رہی ہیں۔
(3) ٹائیفائیڈ ایک ایسا بخار ہے جو بظاہر ختم ہو جاتا ہے یعنی انٹی بائیوٹک سے دب جاتا ہے لیکن جاتا نہیں۔ پھر یہ کبھی کبھی جسم میں ظاہر ہو جاتا ہے یا ایسے مریض جنہیں کبھی ملیریا ہوا تو وہ بھی جسم میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ دن ڈوبتے ہی جسم میں توڑ پھوڑ شروع ہوکر بخار چڑھ جاتا ہے۔ صبح جسم بالکل تندرست ہوجاتا ہے۔ ایسے کئی نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ملے جو پرانے بخار میں مبتلا تھے۔ انہیں گھوٹہ استعمال کرایا کوئی دنوں میں‘ کوئی ہفتوں میں ‘کوئی چند ماہ میں ہمیشہ کیلئے تندرست ہو گئے۔ ایک صاحب اس مرض سے اتنے عاجز آئے سارا دن بیٹھ کر ہائے ہائے کرتے گھر والے عاجز اور تنگ آ گئے۔ ایک بہو تھی وہ روٹھ گئی‘ بیوی پہلے ہی مر گئی تھی اب کوئی روٹی پکا کر دینے والا نہ تھا ۔ انہیں یہی گھوٹہ استعمال کرایا گھر میں سکون آ گیا۔
(4) ٹی بی جتنی پرانی تھی اور ایسے لوگ کہ ٹی بی کا باقاعدہ اٹھارہ ماہ علاج کرایا ‘ کوئٹہ کے قریب ایک جگہ بہت عرصہ داخل رہے لیکن ٹی بی پھر شروع ہو گئی ۔ پھر بیرون ملک چلے گئے۔ بیٹیاں اور دو بیٹے یورپ میں عرصہ دراز سے بلا رہے تھے۔ انہوں نے وہاں علاج کرایا بالکل تندرست ہو گئے چہرہ اور جسم سرخ و سفید ہو گئے لیکن پھر اپنے وطن جہلم پہنچے تو پھر ویسے ہو گئے اور پہلے سے زیادہ بیمار ہو گئے ‘ ہمارے ایک محبت کرنے والے معالج نے انہیں یہی گھوٹہ استعمال کرایا۔ چند ہفتوں کے استعمال سے ایسے صحت یاب ہو ئے کہ آج 6 سال ہو گئے ہیں پھر تکلیف نہیں ہوئی۔
(5) واقعہ یوں ہوا کہ قارئین کی تحریریں عبقری کیلئے ڈھیروں موصول ہوتی ہیں اور ایسے لوگ اپنے تجربات ارسال کرتے ہیں اور ایسے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جو شاید اپنے کسی قریبی عزیز کو بھی نہ بتا سکیں انہیں تحریروں میں ایک زرگر نے یہی گھوٹے کا نسخہ لکھا کہ وہ اسے شوگر کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پہلے خود کو تھی‘ بیوی کو تھی‘ خالہ زاد دو بیٹوں کو تھی اور خاندان کے اور کئی لوگوں کو تھی۔ انہیں خوب فائدہ ہوا۔ پھر میں نے اس کی ترکیب مکمل تحریرکر کے فوٹو کاپی کرا کر لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دی ۔ اب تو ایسے رزلٹ ملے کہ میں خود حیران ہوا کہ اتنے فوائد اس عام سے ٹوٹکے کے ہو سکتے ہیں۔ اب یہی ٹوٹکہ عبقری کے لئے ارسال کر رہا ہوں اور ساتھ وہ فوٹو کاپی بھی ارسال کی پھر میں نے اپنے مریضوں کو بتانا شروع کیا ۔جس جس کو بھی بتایا اور اس نے اعتماد ‘ توجہ‘ دھیان اور خوب مستقل مزاجی سے استعمال کیا۔ خود کئی بڑے بڑے نامور ڈاکٹروں نے استعمال کیا۔ ایک ڈاکٹر کے بقول اس نسخے نے میرے دل کے والو کو کھول دیا۔ ایک پروفیسر ڈاکٹر کے بقول اس گھوٹے نے میرے گردوں کے نظام کو بحال کر دیا۔ میں عرصہ دراز سے گردوں کے فیل ہونے کے مرض میں مبتلا تھا۔ اس کے علاوہ یہ گھوٹہ جوڑوں کے درد‘ بواسیر‘ گیس بادی‘ تبخیر میں نہایت مفید پایا ۔ بس تسلی سے استعمال کریں ‘ تھوڑی محنت کر لیں ‘ زیادہ نفع پائیں۔

ترکیب اور فارمولہ
گلو سبز (ایک بیل جس کے پتے گول پان کی طرح ہوتے ہیں‘ رسے کی طرح درختوں اور دیواروں پر چڑھ جاتی ہے) ایک بالشت کے برابر لے کر اس کے باریک ٹکڑے کر لیں۔ کالی مرچ 21 عدد‘ اجوائن دیسی 10 گرام‘ مغز بادام 21 عدد‘ ریوند خطائی چنے کے برابر ۔ ان سب کو ½ کلو تیز گرم پانی میں رات کو بھگو دیں ۔ صبح باداموں کی سردائی کی طرح چاہیں تو مٹی کی کونڈی میں گھوٹ لیں ورنہ بلینڈر جس میں کیلے وغیرہ کا ملک شیک بناتے ہیں۔ خوب گھوٹ کر مل چھان کر اگر میٹھے کو طبیعت اور صحت اجازت دے تو ڈال کر بالکل چھوٹے چھوٹے گھونٹ پئیں۔ شیک کرتے ہوئے اگر مزید پانی کی ضرورت ہو تو ڈال سکتے ہیں۔ جن علاقوں میں تازہ گلو نہیں ملتی وہاں والے خشک گلو 2 بالشت استعمال کر سکتے ہیں۔ بہرحال فائدہ ضرورہوتا ہے۔ زیادہ فائدے کے حصول کیلئے شام کا بھگویا ہوا صبح گھوٹ کر استعمال کریں اور صبح کا بھگویا ہوا شام کو گھوٹ کر استعمال کریں ۔ اوپر جو ترکیب لکھی ہے یہ ایک وقت کے استعمال کا وزن ہے۔ آپ ایک وقت میں یہ گھوٹہ نہیں پی سکتے تو تھوڑا تھوڑا کر کے بھی سارے دن میں پی سکتے ہیں لیکن صبح نہار منہ جو پیا جائے اس کا نفع زیادہ ہے۔ گرمیوں میں تازہ گھوٹا اور سردیوں میں اس گھوٹے کو گھوٹ چھان کر نیم گرم کر لیں۔ قارئین آپ بھی اپنے تجربات استعمال کے بعد لکھیں اور اپنے تجربات اور مشاہدات لکھا کریں۔

Friday, July 09, 2010

Peaceful Co-Existence Basics



Today we are going to discuss the topic 'Peaceful Co-Existence'. I started drawing this diagram while thinking about the session.
This drawing shows the three basic components of the peace.
  1. Justice
  2. Resources
  3. Ethics
I have shown two extreme results like 'Peace' and ' Anarchy'. There can be endless variations of these three components.
Another aspect of the discussion may go further in detail of each component like 'what are resources or what are Ethics?
Sajjad Khalid

Wednesday, June 02, 2010

How Culture Evolves?

Corporate Culture: A Case of Monkey See, Monkey Do?

Published 12 October 9 7:42 AM | Fred Nickols

Did you ever wonder how your company’s culture – that set of beliefs, traditions, and behavioral norms that determines “the way things work around here” – came to be? Or why, when you try to change it, it seems so resistant? Well, here’s a little story about a scientific experiment that shows how culture comes into being and why it is so resistant.

The experimenters began with a cage, a set of externally enforced boundaries. Inside the cage, they hung a banana on a string and placed a set of stairs under it. They then introduced five monkeys into the cage. Before long, one of the monkeys started to climb the stairs toward the banana. As soon as it touched the stairs the experimenters sprayed all the other monkeys with really cold water. When another monkey made an attempt to get the banana they again sprayed the other monkeys with cold water. After a while the monkeys prevented any of their group from going after the banana.

After the cultural prohibition against “going for the banana” had been established the experimenters put away the cold water. They took one of the original monkeys out of the cage and introduced a new one. Upon spotting the banana the new monkey went after it. To its surprise and dismay all of the other monkeys attacked it. After another attempt and attack the new monkey learned that if it tried to climb the stairs and get the banana it would be assaulted and so it stopped going after the banana. It had been acculturated, assimilated into the cage’s “don’t go for the banana” culture.

Next the experimenters removed another of the original five monkeys and replaced it with another new one. The second new monkey went to the stairs and predictably it was attacked. The first new monkey took part in this punishment with enthusiasm! Similarly a third original monkey was replaced with a new one, then a fourth, then the fifth.

Every time the newest monkey took to the stairs it was attacked by the other monkeys. Most of the monkeys that were beating it had no idea why they were not permitted to climb the stairs or why they were participating in the beating of the newest monkey. After all the original monkeys were replaced none of the remaining monkeys had ever been sprayed with cold water. Nevertheless, no monkey ever approached the stairs to try for the banana. Why not? Because as far as they knew: “That's the way it's always been done around here.”

And that is how a company’s culture is formed: Acceptable and unacceptable behaviors are initially established in response to important external events but, over time, all that remains are strongly-held notions about what is and what isn’t acceptable behavior. The origins of these beliefs vanish with the departure of the members of the group who were present when the patterns and standards were initially established. In a long-lived organization, there might be no members left who know why a given behavior is considered acceptable or unacceptable. Yet all members of the organization are quick to enforce whatever the cultural standards might be.

So how do you break out of this culture trap? Well, you start by trying to find out what’s behind those cultural do’s and don’ts. Why is this expected or required? Why is that prohibited? And don’t accept “That’s the way things are done around here” as an answer. In some cases, you might find there are very good reasons for this or that prohibition or requirement. In others you won’t. In all cases, what you’re out to accomplish is to eliminate blind adherence to behavioral norms.

If you want to prevent hardening of the cultural arteries, try this: Every two or three years, conduct a simple cultural audit (see the decision tree below). Identify whatever behavioral norms are at work and determine why they are in place. See if they are still valid. None of this means that all or even any cultural standards will be eliminated; what it does mean is that if they no longer make any sense you can probably do away with them and, if they are to stay in place, people will know why – and your company’s culture will make sense instead of simply being a case of monkey see, monkey do.

Basic Cultural Audit

Basic Cultural Audit Process

About the Author: My name is Fred Nickols. I am a writer, an independent consultant and a former executive. Visual aids of one kind or another have played a central role in my work for many years. My goals in writing for SmartDraw’s Working Smarter blog are to: (1) provide you with some first-rate content you can’t get anywhere else, (2) illustrate how important good visuals can be in communicating such content and (3) illustrate also the critical role visuals can play in solving the kinds of problems we encounter in the workplace. I encourage you to comment on my posts and to contact me directly if you want to pursue a more in-depth discussion.

Friday, May 07, 2010

بے بسی کے لئے بہلاوا

لباس، رہن سہن اور رسوم کا معروف تو مڈل کلاس سے ہی طے ہوتا ہے۔ لوئر اور اپر کلاس کو بالعموم اس کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی پابندی نہ کر کے کون سی کلاس اپنی اہمیت بڑھا لیتی ہے اور کون سی کھو دیتی ہے۔
تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ اپر کلاس معروف کو چیلنج کرنے سے اپنی اہمیت میں اضافہ کر لیتی ہے کیونکہ اُس نے چیلنج کرنے کی قوت مادی وسائل کی وجہ سے حاصل کی ہے۔ یہ وسائل اپر کلاس نے اُس طاقت کے بل بوتے پر جمع کیے ہیں جو اپنی کوئی اخلاقی یا انسانی بنیاد نہیں رکھتی۔۔۔۔۔۔۔ایک اندھی، بہری، خود پسند اور خود پرست طاقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ طاقت خودشناس نہیں بناتی۔
اِس سے یہ بات خود بخود معلوم ہو جاتی ہے کہ انسانوں کی کثیر تعداد کے نزدیک اہمیت کا پیمانہ ایک اندھی، بہری، خود پسند اور خود پرست طاقت ہے جسے ہر شخص حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ تو کمزوروں کی مجبوری ٹھہری کہ وہ اِس طاقت کو، اخلاقی، مذہبی، سیاسی یا سماجی ڈھانچے کا حصہ بنا کر اپنی بے بسی کو بہلا لیں۔

Thursday, March 25, 2010

ایک احساس

آج مجھے لگ رہا ہے کہ زندگی ضائع ہو رہی ہے اور میں خطاطی کے حوالے سے ایک تو زیادہ نہیں جان سکا اور جو کچھ معلوم ہو سکا اُس کا موثر ابلاغ بھی نہیں ہو پایا۔ اپنی علمی کم مائیگی کا احساس تو ہمیشہ شاملِ حال رہا لیکن عمل میں تساہل اور فکر میں ارتکاز کی کمی بھی دکھائی دے رہی ہے۔

Wednesday, October 14, 2009

Unknown Calligrapher. One of the finest works in Nastaaliq
Posted by Picasa
An excercise written by Ahmad Al Umari in Khat-e-Naskh
Posted by Picasa

Sunday, September 13, 2009

خطاطی کی چھ روزہ ورکشاپ

ایک اسلامی فلاحی ادارے 'عالم الخیال' کی جانب سے خطاطی کی چھ روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں شرکا کی تعداد دس تھی۔ یہ ورکشاب دلچسپ اور معلومات افزا رہی۔ ۲۰ اگست کو اختتام پر اسناد کی تقسیم بھی ہوئی اور شرکاء کے کام کی نمائش بھی۔ سجاد خالد نے اُستاد کے فرائض سرانجام دئے۔

Wednesday, August 19, 2009

اگست 2009 پر لکھی گئی ایک پاکستانی کی دعا

کسی ہجوم میں جانے میں کب سے کھویا ہوں
کوئی نہیں ہے تو صحن چمن سے گویا ہوں
رفیق ہیں تو کہیں اندروں اندھیروں میں
چھپے ہوئے ہیں سویرے بھی کچھ اندھیروں میں
شہر بلند، فضاوں میں گنبد و مینار
زباں تو رکھتے ہیں لیکن نہیں ہیں گوش گذار
فضا خموش، کہ سوئے ہوئے ہیں سب آزار
ستم نہیں کہ کھلے ہیں شہر کے سب بازار
بہل گیا ہے چراغوں کی روشنی سے غریب
کسے خبرہے کہ طوفاں کا راستہ ہے نصیب
چھٹے جو ابر تو یزداں بھی مدعا کہہ دے
ہٹے غبار تو انساں بھی مدعا کہہ دے
رہے یہ کھیل تو بہلے کسی کا دل اس سے
نمود گل کا ہوں باعث یہ آب و گل اس سے

{سجاد}

اُردو کا اپنا عروض

اُردو کا اپنا عروض
ڈاکٹر گیان چند جین
پیش لفظ
آمدو آورد کے اعتبار سے کسی قوم کی موسیقی کے کئی مدارج ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ فطری سطح پر لوک سنگیت ہوتا ہے اور سب سے زیادہ صنعت آمیز استادی موسیقی موسیقی میں جذبہ خیال بسانے کے لیے الفاظ کا سہارا لے کر شعر کہے جاتے ہیں جس طرح استادی موسیقی کی لے بندی کے لیے سر اور تال کی بنا پر مختلف راگ بناۓ گۓ اسی طرح شاعری کے بولوں کو مضـبوط کرنے کے لیے عروض کافن اختراع کیا گيا عروض وسیلہ ہے شاعری مقصود کسی قوم کا عروض اس قوم کی موسیقی احساس ترنم کا آئينہ دار ہوتا ہے قوم کے احساس موزونیت کے سب سے کھرے نشاں گر لوک گيت، بعض موزوں کہاوتیں اور بچوں اور بے پڑھوں کی تک بندیاں ہوتی ہیں اہل اردو میں یہ سب ہندوستان اوزان میں ہیں۔
اردو شاعری کے قدیم مستند نمونے دکن میں ملتے ہیں جہاں دو ایک صدی تک زیادہ تر عوامی یا ہندی اوزان میں شاعری کی گئی نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ مستشنی ہے کہ یہ عربی فارسی وزن میں ہے بعد میں فارسی کے اثر سے عربی فارسی اوزآن آتے کۓ۔ اردو زبان عرب و عجم و ہند کے مشترکہ مزاج کی نمائندہ ہے لیکن اردو عروض میں محض عرب و عجم کا فن پایا جاتا ہے ہندوستان کی کوئی نمائیندگی نہیں ۔ اردو کے ماہرین عروض فارسی عروض میں نہ کوئی نئی بحر شامل کی نہ کسی بحر میں ترمیم کی جب کہ فارسیوں نے عربی عروض میں یہ عمل کیا تھا واضح ہو کہ ایرانیوں کا مزاج موسیقی عربی موسیقی سے مختلف ہے اور اس کا اظہار ابتدائی فارسی شاعری میں ہوتا ہے۔ حبیب اللہ غضنفر نے انپی کتاب "اردو کاعروض" میں فارسی شعرا کے لیے متعدد اشعار درج کۓ ہیں جن کے لیے وہ کہتے ہیں۔

"یہ صرف تیسری اور چوتھی صدی کے شعرا کے کلام سے کچھ نمونے پیش کۓ گۓ ہیں۔ اگر ان اشعار کی تعطیع کی جاۓ گي تو معلوم ہو گا کہ عربی عروض کے قواعد سے یہ اشعار ناموزوں ہیں۔"
وجہ صاف ہے کہ ایرانیوں کاموسیقیانہ مزاج عربوں سے مختلف تھا جس پر عربی عروض تھوپ دیا گيا۔ یہی کیفیت اردو کی ہے گجری اور دکنی کے صوفی شعرا میں پیشتر کا کلام فارسی عروض کے لحاظ سے غیر موزوں ؛ہے لیکن وہ ہندوستان مزاج کے مطابق ہے۔ بہرحال آہستہ آہستہ اردو کے مزاج میں فارسی عروض اس طرح در آتا گيا کہ اب وہ اہل اردو کے شعری مزاج کا جزو لاینفک ہو گيا ہے ۔ عروض سے بالکل ناواقف شعرا ان عربی اور فارسی اوزان مین بے عیب شعر کہتے ہیں اس سے یہ غلط فہیمی نہ ہو کہ اردو شعرا نے عربی فارسی عروض کو جیسے کا تیسا قبول کر لیا ہے۔ انھوں نے عربی فارسی کے بہت سے اوزان کو رد کیا ہے ان اووان میں مجوزہ بہت سی آزادیوں کو قبول نہیں کیا۔ اور متعدد نۓ اوزان شامل کۓ ہیں افسوس یہ ہے کہ عروضیوں کو ان کی خبر نہیں۔ اردو عروض جامد رہا۔ شاعری آگے بڑھ گئی ۔ عروض نے شعرا کے اجتہادات کی گرفت نہیں کی۔
لغت بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ موجودہ لغات کو سامنے رکھ کر ان کی مدد سے ایک نئی لغت وضع کر لی جاۓ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ادب کو کھنگال کر اس سے الفاظ و مفاہیم لیۓ جائيں جیسا کہ اردو لغت بورڈ کراچی کر رہا ہے عروضی کتاب لکھنے کا بھی آسان طریقہ یہ ہے کہ مروجہ کتابوں کو سامنے رکھ کر ایک نئي کتاب لکھ دی جاۓ صحیح تر طریقہ یہ ہوگا۔ کہ عربی فارسی عروضی کے صرف انھیں حصوں کر لیا جاۓ جو اردو کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔ اہم تر کام اضافوں کا ہوگا۔ اردو شاعری میں مسلسل ہیتی تجربے ہوتے رہے ہیں عروض کو ان سب کو شناخت کر کے اپنے اندر شامل کر لینا چاہیے مجھے ان اہل مکتب پر رحم آتا ہے جو عروض کو مقصود بالذات سمجھتے ہیں جو اردو شاعری کو عربی فارسی عروض کا حلقہ بگوش بنانا چاہتے ہیں جن کی دستار فضیلت کا سب سے رنگين پھول یہ بحث ہے کہ فلاں وزن مین فلاں مقام پر فلاں زحاف آ سکتا ہے کہ نہیں انھیں جاننا چاہیے کہ عروض کو شاعری کی متابعت کرینی ہے شاعری کو عروض کی نہیں کوئی بڑا عروضی بڑا شاعر نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو محقق طوسی فارسی کے اور سحر عشق آبادی جدید اردو کے سب سے بڑے شاعر ہوتے۔
میں نے ایک ابتدائی کوشش کی ہے کہ اردو عروض کو ارودو شاعری کے سفر میں شریک کروں اسے عربی فارسی کا مثنی نہ رہنے دوں۔ میں نے آخر الذکر کے ان اوزان کو شامل نہیں کیا جنھیں عام اردو شاعری اور قاری قبول نہیں کرتا۔ میں نے ہندی کے ان تمام اوزان کو لیا ہے جو اردو شاعری کا جزو ہو گۓ ہیں۔ انھیں اردو ارکان میں ظاہر کیا ہے عروض کی کتاب میں پہلی بار آزاد نظم کے اوزآن کے سانچے مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔
نظم طباطبائی نے تلخیص عروض میں لکھا ہے۔:
علامہ سکاکی نے مقتاح میں شکایت کی ہے کہ عروض نے اس کثرت سے اصطلاحات بناۓ ہیں کہ ایک نئی زبان معلوم ہوتی ہے ۔ پہلے اس زبان کو سیکھ لو پھر عروض کو سمجھو۔"
اجڑ گئے ہیں مری تازہ فکر کے منظر
کہ کھو گیا ہے کہیں راہ میں ہجوم نخیل
میں تیز رو تھا بہت راستوں کے لطف میں تھا
یہ کیا مقام کہ اپنا کوئی سراغ نہیں

مرے وجود سے باہر بنا رہے تھے وجود
سبک خرام نمازوں کے سجدہ ہائے نمود
وہی غلاف عقیدت مری قبا کا مجاز
دکھا رہا تھا تری چشم میں نظر کا جمود

Saturday, August 08, 2009

ایک دن نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک فارغ التحصیل آرٹسٹ تشریف لائے اور روایتی خطاطی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "یہ کیا فن ہوا کہ آپ سب خطاط ایک ہی انداز میں، ایک ہی پیمائش میں الفاظ لکھتے ہیں، اس طرح اسے تخلیقی عمل تو نہیں کہا جا سکتا"۔
میں نے اپنی سکیچ بک ، سیاہی اور ایک برش پیش کرتے ہوئے کہا "آپ اس کاغذ پر دائیں سے بائیں برش سے دس سٹروکس لگائیں اور کوشش کریں کہ یہ کم و بیش ایک سائز کی ہوں۔
جب وہ کر چکے تو میں نے ان سے کہا کہ ان سٹروکس کی کوالٹی کے مطابق ان پر نمبر لگا دیں یعنی پہلے نمبر پر کون سی ہے ، یونہی ترتیب سے نمبر لگنے کے بعد میں نے عرض کی کہ " آپ نے دس سٹروک لگائے اور خود تسلیم کیا کہ ان میں سے ایک سب سے بہتر ہے، فن خطاطی ہم سے محض یہ مطالبہ کرتا ہے کہ کم از کم آئندہ بننے والی سٹروک پہلے والی سے معیار میں کم نہ ہو۔ جب تک ہم پہلی اعلی ترین سٹروک سے بہتر سٹروک بنانے میں کامیاب نہ ہو جائیں ہمیں پہلی سٹروک کی پیمائش کر کے اس کے معیار کو برقرار رکھنا ہو گا"۔ میرا اصرار تھا کہ تمام فنون میں آگے بڑھنے کا یہی کلیہ رہا ہے۔
اس عملی مثال سے ہمارے دوست مطمئن ہو گئے اور اعتراف کیا کہ وہ خطاطی کے بارے میں پہلے ایک سطحی رائے رکھتے تھے۔

Monday, March 03, 2008

بیٹھک

ذیشان حسین کےگھر پر یر اتوار کے دن معروف متکلم، فلسفی، شاعر اور صوفی
جناب احمد جاوید تشریف لاتے ہیں اور تقریبا دو اڑھائی گھنٹے کی اس نشست
میں، فلسفہ، فنون، ادب، مذھب اور تیذیب زیر بحث آتے ہیں۔
ہمارے لئے یہ نشست ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ یہاں ایک صاحب، نظر اور
صاحبِ مطالعہ اپنے فہم اور واردات کے سفر میں سب کو شامل کر لیتا ہے۔ اس
موضوع کی تفصیل جلد بیان کی جائے گی اور تمام مباحث کا خلاصہ پیش کیا
جائے گا۔

Saturday, November 24, 2007

International Calligraphy Exhibition, Seminar & Compitition Started

A ceremony for the Distribution of Awards will be held at Alhamra Arts Council, The Mall,
Lahore, 30 November, 2007. Result of International Calligraphy Competition will be announced.
Pakistan Calligraph Artists' Guild

Friday, October 26, 2007

خطاطی کی تین کتب کی اشاعت ہو گئی

شمس الدین اعجاز رقم کی "نظمِ پروین" اور "مرقعِ نگاریں کے علاوہ تاج الدین زریں رقم کی "مرقعِ زریں" انٹرنیٹ پر شائع ہو گئیں۔ دیکھئے
http://calligraphyislamic.com "

"Nazm-e-Parvin" and "Muraqqa-e-Nigarin" and "Muraqqa-e-Zarrin" Published

Three books out of five are published today, only enlarged images of "Nazm-e-Parvin" will be uploaded later. Find these books at the home page od http://calligraphyislamic.com

Thursday, October 25, 2007

Next Group of the books on Nastaliq Script

  1. Tadrees-e-Khattati by Haji Muhammad Azam Munawwar Raqam
  2. Ilm-o-Fan by Wajid Mahmood Yaqoot Raqam

Classical and Technical Books on Urdu Khattati (Kitabat / Nastaliq)


We are pleased to announce that a project to publish books regarding classical and technical details of nastaliq script being used for Urdu, punjabi, persian, pushto, sindhi, kashmiri and other muslim languages is started. Initially we will present 5 books including;
  1. Muraqqa-e-Zarrin by Tajuddin Zarrin Raqam Lahori
  2. Nazm-e-Parvin by Shamsuddin Ejaz Raqam Lakhnawi
  3. Ejaz Raqam by Shamsuddin Ejaz Raqam Lakhnawi
  4. Muraqqa-e-Nigarin by Shamsuddin Ejaz Raqam Lakhnawi
  5. Atyang-e-chin by Shamsuddin Ejaz Raqam Lakhnawi

اُردو خطاطی ﴿کتابت﴾ کی تاریخی اور فنی کتب کی آن لائن اشاعت کا منصوبہ


السلام علیکم،
ہم بڑی خوشی کے ساتھ اطلاع دے رہے ہیں کہ اُردو خطاطی کی نہایت اہم کتب کی آن لائن اشاعت کے منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اِس سلسلے میں دو ماہ کے دوران جو کتب پیش کی جائیں گی، اُن کے نام یہ ہیں
  1. مرقعِ زریں
  2. نظمِ پروین
  3. اعجاز رقم
  4. مرقعِ نگاریں
  5. ارژنگِ چین

Tuesday, August 21, 2007

International Calligraphy Competition and Exhibitions

Pakistan Calligraph-artists' Guild is holding an International Calligraphy Competition and Exhibitions at Lahore on 23rd Nov 2007 at Lahore. Kindly send your works' images before sending the originals at pcg@calligraphyislamic.com

Friday, April 13, 2007

A Tribute to Winners of IRCICA's Calligraphy Competition 2007

Pakistan Calligraph Artists Guild has organized a meeting to pay tribute to Traditional Islamic Calligraphers for winning awards at IRCICA's Calligraphy Competition 2007.

Exhibition of Study of Traditional Ornamentation

Copra Gallery, Mall Road, Near Regal Chowk, Lahore. Starting Date: 13th April, 2007 organized by Pakistan Calligraph artists Guild.

5 Pakistani Calligraphers awarded by IRCICA,s International Caligraphy Competition, 2007

Muhammad, Ali Zahid, (Jali Thuluth), Ilahi Bukhsh Mutea (Jali Thuluth), Ahmad Ali Bhutta (Jali Thuluth), Hafiz Anjum Mahmood (Diwani), Muhammad Ashraf Heera (Kufi). Congratulations to all of them.

Saturday, April 07, 2007

Google....partenered with Calligraphyislamic

Create your personalized account on http://calligraphyislamic.com and get 2 GB of space loaded with state-of-the-art tools including Gmail, Your website, Your Start Page, Your Spreadsheet, Your Document and Your Google Talk.

Signup Now to reserve your name. Google will continue offering more attractive services to the members in near future. Rush Now...............

Tuesday, April 03, 2007

Assistant Editor Calligraphyislamic.com

Muhammad Ali Zahid joined the calligraphyislamic.com as Assistant Editor.

Muhammad and Othman (Usman) Ozjai's Website

Sultan Jalaluddin of Islamic Empire in Turkey was the pupil of Ustad Mustafa Raqim. He was one of the top masters of Islamic Calligraphy.

Saturday, March 31, 2007

A Monthly Meeting for Urdu and Punjabi Literature

We are going to restart the Monthly Meeting regarding Urdu and Punjabi Literature appreciation and criticism at Lahore. Kindly send your mailing address and Phone Number to enable us send you the invitation.

Place: Al-Mawrid's Library, 51-K, Model Town, Lahore.

Time: After Maghrib Prayer (Please come before Maghrib)

Date: Will be decided after 7th of April, 2007.

If you want to present your literary works, kindly submit it to sajjadkhalid@gmail.com. There are two segments of the program. First part for new writers to present their works. Second part is dedicated for serious criticism for senior writers.

You may suggest to change the program.

Muhammad and Othman (Usman) Ozjai's Website

OZCAY.COM

This website is made with Flash. It has two sections with the names of two brothers. Some times site is not able to load its images database. Keep trying.

Tuesday, March 13, 2007

Does Islam restrict us to a specific language, dress, custom, region or art?

Does Islam restrict us to a specific language, dress, custom, region or art?
Dear Friends, Kindly send your posts on this topic.

Monday, March 12, 2007

by Muhammad Ali Zahid
One of the snaps taken in my office while conducting a meeting of Pakistani Calligraphers for mutual understanding and sharing of their experiences. In front of all Mr. Ahmad Ali Bhutta is doing Exercise Mashq of the Nastaaliq script. In Back groung (Left to right) Mr. Muhammad Ali Zahid, Ashraf Heera and Muhammad Basit are sitting.
Photograph by Sajjad Khalid

Islamic Calligraphy

Dear Friends,

Kindly visit http://groups.yahoo.com/group/islamicarts/

and Join another online community dedicated to Islamic Arts.





powered by performancing firefox

Saturday, March 10, 2007

Sajjad Khalid

I need your comments on Khat and composition.

Allahu Wahdahu

Its my original composition of "Allahu Wahdahu" in Thuluth Style

خورشید رضوی

مجھ سے بن آئے گی کچھ نعتِ محمد میں کہیں
ہوں ابھی مدحتِ سرکار کی ابجد میں کہیں
آپ سے دور بھٹکتا ہے نشیمن کے لئے
دیر سے طائرِ دل روح کے معبد میں کہیں
خوش نصیبی درِ سرکار پہ لے آئی ہے
اب ہم آتے ہیں غمِ دہر تری زد میں کہیں
وہی نسبت مری شریانوں میں لو دیتی ہے
بجھ گیا جس کا شررخاکِ اب و جد میں کہیں

سجاد خالد

اور جنت ہے کیا

اِک کھلا راستہ

جس پہ میں اپنی رفتار سے چل سکوں

Bethak ka Aghaz Web par

Dear Friends, (Saeed Sahab, Mudassir Sahab, Almas Sahab, Asghar Sahab, Rana Sahab,)
I have started this topic for our interaction. All of you are invited here to share your photos, writings, thoughts and links.
Enjoy

Tuesday, January 03, 2006

Assalam-u-Alaikum,
I've designed a website http://calligraphyislamic.com to promote calligraphy as one of the most popular arts of Islamic Civilization. I need people to visit and send their comments.
Sajjad Khalid
Editor
CalligraphyIslamic