Wednesday, August 19, 2009

اگست 2009 پر لکھی گئی ایک پاکستانی کی دعا

کسی ہجوم میں جانے میں کب سے کھویا ہوں
کوئی نہیں ہے تو صحن چمن سے گویا ہوں
رفیق ہیں تو کہیں اندروں اندھیروں میں
چھپے ہوئے ہیں سویرے بھی کچھ اندھیروں میں
شہر بلند، فضاوں میں گنبد و مینار
زباں تو رکھتے ہیں لیکن نہیں ہیں گوش گذار
فضا خموش، کہ سوئے ہوئے ہیں سب آزار
ستم نہیں کہ کھلے ہیں شہر کے سب بازار
بہل گیا ہے چراغوں کی روشنی سے غریب
کسے خبرہے کہ طوفاں کا راستہ ہے نصیب
چھٹے جو ابر تو یزداں بھی مدعا کہہ دے
ہٹے غبار تو انساں بھی مدعا کہہ دے
رہے یہ کھیل تو بہلے کسی کا دل اس سے
نمود گل کا ہوں باعث یہ آب و گل اس سے

{سجاد}

اُردو کا اپنا عروض

اُردو کا اپنا عروض
ڈاکٹر گیان چند جین
پیش لفظ
آمدو آورد کے اعتبار سے کسی قوم کی موسیقی کے کئی مدارج ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ فطری سطح پر لوک سنگیت ہوتا ہے اور سب سے زیادہ صنعت آمیز استادی موسیقی موسیقی میں جذبہ خیال بسانے کے لیے الفاظ کا سہارا لے کر شعر کہے جاتے ہیں جس طرح استادی موسیقی کی لے بندی کے لیے سر اور تال کی بنا پر مختلف راگ بناۓ گۓ اسی طرح شاعری کے بولوں کو مضـبوط کرنے کے لیے عروض کافن اختراع کیا گيا عروض وسیلہ ہے شاعری مقصود کسی قوم کا عروض اس قوم کی موسیقی احساس ترنم کا آئينہ دار ہوتا ہے قوم کے احساس موزونیت کے سب سے کھرے نشاں گر لوک گيت، بعض موزوں کہاوتیں اور بچوں اور بے پڑھوں کی تک بندیاں ہوتی ہیں اہل اردو میں یہ سب ہندوستان اوزان میں ہیں۔
اردو شاعری کے قدیم مستند نمونے دکن میں ملتے ہیں جہاں دو ایک صدی تک زیادہ تر عوامی یا ہندی اوزان میں شاعری کی گئی نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ مستشنی ہے کہ یہ عربی فارسی وزن میں ہے بعد میں فارسی کے اثر سے عربی فارسی اوزآن آتے کۓ۔ اردو زبان عرب و عجم و ہند کے مشترکہ مزاج کی نمائندہ ہے لیکن اردو عروض میں محض عرب و عجم کا فن پایا جاتا ہے ہندوستان کی کوئی نمائیندگی نہیں ۔ اردو کے ماہرین عروض فارسی عروض میں نہ کوئی نئی بحر شامل کی نہ کسی بحر میں ترمیم کی جب کہ فارسیوں نے عربی عروض میں یہ عمل کیا تھا واضح ہو کہ ایرانیوں کا مزاج موسیقی عربی موسیقی سے مختلف ہے اور اس کا اظہار ابتدائی فارسی شاعری میں ہوتا ہے۔ حبیب اللہ غضنفر نے انپی کتاب "اردو کاعروض" میں فارسی شعرا کے لیے متعدد اشعار درج کۓ ہیں جن کے لیے وہ کہتے ہیں۔

"یہ صرف تیسری اور چوتھی صدی کے شعرا کے کلام سے کچھ نمونے پیش کۓ گۓ ہیں۔ اگر ان اشعار کی تعطیع کی جاۓ گي تو معلوم ہو گا کہ عربی عروض کے قواعد سے یہ اشعار ناموزوں ہیں۔"
وجہ صاف ہے کہ ایرانیوں کاموسیقیانہ مزاج عربوں سے مختلف تھا جس پر عربی عروض تھوپ دیا گيا۔ یہی کیفیت اردو کی ہے گجری اور دکنی کے صوفی شعرا میں پیشتر کا کلام فارسی عروض کے لحاظ سے غیر موزوں ؛ہے لیکن وہ ہندوستان مزاج کے مطابق ہے۔ بہرحال آہستہ آہستہ اردو کے مزاج میں فارسی عروض اس طرح در آتا گيا کہ اب وہ اہل اردو کے شعری مزاج کا جزو لاینفک ہو گيا ہے ۔ عروض سے بالکل ناواقف شعرا ان عربی اور فارسی اوزان مین بے عیب شعر کہتے ہیں اس سے یہ غلط فہیمی نہ ہو کہ اردو شعرا نے عربی فارسی عروض کو جیسے کا تیسا قبول کر لیا ہے۔ انھوں نے عربی فارسی کے بہت سے اوزان کو رد کیا ہے ان اووان میں مجوزہ بہت سی آزادیوں کو قبول نہیں کیا۔ اور متعدد نۓ اوزان شامل کۓ ہیں افسوس یہ ہے کہ عروضیوں کو ان کی خبر نہیں۔ اردو عروض جامد رہا۔ شاعری آگے بڑھ گئی ۔ عروض نے شعرا کے اجتہادات کی گرفت نہیں کی۔
لغت بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ موجودہ لغات کو سامنے رکھ کر ان کی مدد سے ایک نئی لغت وضع کر لی جاۓ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ادب کو کھنگال کر اس سے الفاظ و مفاہیم لیۓ جائيں جیسا کہ اردو لغت بورڈ کراچی کر رہا ہے عروضی کتاب لکھنے کا بھی آسان طریقہ یہ ہے کہ مروجہ کتابوں کو سامنے رکھ کر ایک نئي کتاب لکھ دی جاۓ صحیح تر طریقہ یہ ہوگا۔ کہ عربی فارسی عروضی کے صرف انھیں حصوں کر لیا جاۓ جو اردو کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔ اہم تر کام اضافوں کا ہوگا۔ اردو شاعری میں مسلسل ہیتی تجربے ہوتے رہے ہیں عروض کو ان سب کو شناخت کر کے اپنے اندر شامل کر لینا چاہیے مجھے ان اہل مکتب پر رحم آتا ہے جو عروض کو مقصود بالذات سمجھتے ہیں جو اردو شاعری کو عربی فارسی عروض کا حلقہ بگوش بنانا چاہتے ہیں جن کی دستار فضیلت کا سب سے رنگين پھول یہ بحث ہے کہ فلاں وزن مین فلاں مقام پر فلاں زحاف آ سکتا ہے کہ نہیں انھیں جاننا چاہیے کہ عروض کو شاعری کی متابعت کرینی ہے شاعری کو عروض کی نہیں کوئی بڑا عروضی بڑا شاعر نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو محقق طوسی فارسی کے اور سحر عشق آبادی جدید اردو کے سب سے بڑے شاعر ہوتے۔
میں نے ایک ابتدائی کوشش کی ہے کہ اردو عروض کو ارودو شاعری کے سفر میں شریک کروں اسے عربی فارسی کا مثنی نہ رہنے دوں۔ میں نے آخر الذکر کے ان اوزان کو شامل نہیں کیا جنھیں عام اردو شاعری اور قاری قبول نہیں کرتا۔ میں نے ہندی کے ان تمام اوزان کو لیا ہے جو اردو شاعری کا جزو ہو گۓ ہیں۔ انھیں اردو ارکان میں ظاہر کیا ہے عروض کی کتاب میں پہلی بار آزاد نظم کے اوزآن کے سانچے مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔
نظم طباطبائی نے تلخیص عروض میں لکھا ہے۔:
علامہ سکاکی نے مقتاح میں شکایت کی ہے کہ عروض نے اس کثرت سے اصطلاحات بناۓ ہیں کہ ایک نئی زبان معلوم ہوتی ہے ۔ پہلے اس زبان کو سیکھ لو پھر عروض کو سمجھو۔"
اجڑ گئے ہیں مری تازہ فکر کے منظر
کہ کھو گیا ہے کہیں راہ میں ہجوم نخیل
میں تیز رو تھا بہت راستوں کے لطف میں تھا
یہ کیا مقام کہ اپنا کوئی سراغ نہیں

مرے وجود سے باہر بنا رہے تھے وجود
سبک خرام نمازوں کے سجدہ ہائے نمود
وہی غلاف عقیدت مری قبا کا مجاز
دکھا رہا تھا تری چشم میں نظر کا جمود

Saturday, August 08, 2009

ایک دن نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک فارغ التحصیل آرٹسٹ تشریف لائے اور روایتی خطاطی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "یہ کیا فن ہوا کہ آپ سب خطاط ایک ہی انداز میں، ایک ہی پیمائش میں الفاظ لکھتے ہیں، اس طرح اسے تخلیقی عمل تو نہیں کہا جا سکتا"۔
میں نے اپنی سکیچ بک ، سیاہی اور ایک برش پیش کرتے ہوئے کہا "آپ اس کاغذ پر دائیں سے بائیں برش سے دس سٹروکس لگائیں اور کوشش کریں کہ یہ کم و بیش ایک سائز کی ہوں۔
جب وہ کر چکے تو میں نے ان سے کہا کہ ان سٹروکس کی کوالٹی کے مطابق ان پر نمبر لگا دیں یعنی پہلے نمبر پر کون سی ہے ، یونہی ترتیب سے نمبر لگنے کے بعد میں نے عرض کی کہ " آپ نے دس سٹروک لگائے اور خود تسلیم کیا کہ ان میں سے ایک سب سے بہتر ہے، فن خطاطی ہم سے محض یہ مطالبہ کرتا ہے کہ کم از کم آئندہ بننے والی سٹروک پہلے والی سے معیار میں کم نہ ہو۔ جب تک ہم پہلی اعلی ترین سٹروک سے بہتر سٹروک بنانے میں کامیاب نہ ہو جائیں ہمیں پہلی سٹروک کی پیمائش کر کے اس کے معیار کو برقرار رکھنا ہو گا"۔ میرا اصرار تھا کہ تمام فنون میں آگے بڑھنے کا یہی کلیہ رہا ہے۔
اس عملی مثال سے ہمارے دوست مطمئن ہو گئے اور اعتراف کیا کہ وہ خطاطی کے بارے میں پہلے ایک سطحی رائے رکھتے تھے۔