Monday, December 27, 2010

کاپی رائٹس اور تیسری دُنیا

کاپی رائٹس پر جب میری توجہ ہوئی تو مجھے ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اتنا عرصہ گذر گیا تھا جس میں میری پیشہ ورانہ ضرورت کی معلومات پر مبنی اکثر کتابیں اور سافٹ وئر زیرِ استعمال آ چکے تھے۔ میں جو اپنے ذہنی اور جسمانی کام کا معاوضہ لینا جائز سمجھتا ہوں اور کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ میرے کام سے میری شرائط کے برخلاف استفادہ کرے، یہ کیسے تصور کر سکتا تھا کہ دوسروں کے معاملے میں اِس ضابطے کی خلاف ورزی کرتا۔ میرے لئے عملاً یہ بھی ممکن نہ تھا کہ فوراً اپنے پیشے کے معاون سافٹ وئر خرید لوں۔ نتیجتاً میں احساسِ جرم کا شکار ہو گیا جس نے میرے تخلیقی وجود کے امکانات کو محدود اور مسدود کرنا شروع کر دیا۔

شروع میں میرا خیال تھا کہ تیسری دُنیا جس معاشی بدحالی کا شکار ہے اُس میں ان قوانین کےمعاملے میں نرمی ہونی چاہیے اور حکومتوں کو ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ جو ادارے سرمائے کے نقطۂ نظر سے مستحکم ہوں اُن کو کاپی رائٹس کے سلسلے میں نسبتاً زیادہ پابند کیا جائے ۔ اور ترقی یافتہ دُنیا کو کم از کم تیسری دُنیا کے معاملے میں ان قوانین میں سختی نہیں کرنی چاہیے۔ بہت جلد مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ اجازت دے کر وہ اپنے ہاں بھی قانون شکنی کا دروازہ کھول دیں گے۔ اور ایسا ہوا بھی نہیں۔

ترقی یافتہ اقوام جس تیزی سے مسابقت کی فضاء میں آگے بڑھ رہی ہے، اُس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ پیچھے مُڑ کر دیکھیں ، وہ یہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے والے پتھر کے بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ ایسی راہ بھی اختیار نہیں کریں گے جو اُن کے سرمایہ دارانہ مفادات کو زد پہنچائے۔

اب سوال یہ ہے کہ میں جس احساسِ جرم کا شکار ہوں، مجھے خود کو اُس سے نکالنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ میرے ذہن میں اس کے متعدد جواب آرہے ہیں، مثلا ً

1. تمام غیر قانونی ذرائع کو فوراً چھوڑ دینا چاہیے، جس کے نتیجے میں مزید معاشی بحران کا شکار ہو جاوں گا۔

2. تمام غیر قانونی ذرائع یہ سمجھ کر استعمال کروں کہ ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کا عظیم قلعہ استعمار کا نتیجہ ہے اور مجھے کم از کم اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے احساسِ جرم کے بغیر ایسا کرنا ہو گا۔ اس طریقے میں مجھے بس اتنی احتیاط برتنی ہو گی کہ میں کوئی ایسا اقدام نہ کروں جس سے میں قانون کی زد میں آ سکوں۔ مزید یہ کہ مجھے یہ رویہ اپنے ملک یا تیسری دُنیا کے معاملے میں نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہاں ہونے والے تخلیقی یا تحقیقی کام کے کاپی رائٹس کی حفاظت میری ذمہ داری میں شامل ہے۔

3. مجھے ایسے متبادل ذرائع ڈھونڈ کر استعمال کرنے چاہیے جو مفت دستیاب ہوں۔ اِس طریقے سے میں قوانین کی زد میں آئے بغیر اور کسی احساسِ جرم کی غیر موجودگی میں اپنی ترقی کا عمل بھی جاری رکھ سکتا ہوں۔ یہ طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ کچھ تلاش اور تجربے کے بعد ہماری ضرورت کا اکثر مواد اور سافٹ وئر میسر آ سکتا ہے۔ اب بہت محدود تعداد میں ذرائع رہ جائیں گے جن کے لئے کسی کو قانون شکنی کرنی پڑے اور یہ ذرائع میری معلومات کی حد تک بڑے اداروں کی ضرورت ہیں جو قوتِ خرید بھی رکھتے ہیں۔

ترقی یافتہ اقوام میں انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے حساس افراد بھی ہیں اور وہ جدید تعلیم اور ہنر سے لیس ہونے کی وجہ سے ہم سے کہیں زیادہ موثر کام کر رہے ہیں۔ ان کاموں سے استفادے کے لئے ہمیں دو بنیادی ہنر آنے چاہییں، پہلا انگریزی زبان سے درمیانے درجے کی واقفیت اور دوسرا انٹرنیٹ کا بہتر استعمال۔ پاکستان میں میٹرک پاس افراد بھی یہ دونوں صلاحیتیں آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات اُصولی طور پر ماننی ہو گی کہ کاپی رائٹس کا قانون درست ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ قوانین سے صرف طاقتور ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، خواہ وہ اقوام ہوں، مما لک ہوں، ادارے ہوں یا افراد۔

سمجھدار شخص وہی ہوتا ہے جو اپنے راستے میں آنے والے مشکلوں کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تیسری دُنیا کے لوگوں کو ترقی یافتہ اقوام کے حساس افراد کی مدد حاصل کر کے بغیر کسی احساسِ جرم کے اپنے لئے بہتر کل تخلیق کرنا ہو گا ۔

1 comment:

Anonymous said...

hi, good site very much appreciatted