سجاد خالد، مئی، ۲۰۱۱
ہم زمین کے جس ٹکڑے پر رہتے ہیں یہاں ہزاروں برس سے خوشحالی کی کہانیاں سُنائی جا رہی ہیں۔ نہ کبھی رزق کی کمی کا ذکر ہوا اور نہ کبھی ترقی کا پہیہ رُکا۔ تہذیب اور کلچر کے تو اہم مراکز میں سے ہم ایک ہیں۔ یہ ہماری دولت ہی تو تھی جسے لوٹنے دنیا بھر سے جنگجو لٹیرے آ جایا کرتے تھے۔ سب سے آخر میں آنے والا برطانیہ یہاں سے صنعتی انقلاب کے لئے سرمایہ لے گیا اور عالمی جنگوں میں جھونکنے کے لئے کم تعلیم یافتہ لیکن صحت مند جوان بھی۔
یہ وہ فخریہ جملے ہیں جو برصغیر میں رہنے والوں کو سکھائے جاتے ہیں۔ لیکن کوئی انہیں یہ نہیں بتاتا کہ جب تمہارے پاس وسائل تھے تو اِس کے زمینی اسباب کیا تھے اور جب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا تو اُس کی کیا وجوہات تھیں۔
باقی رہی بات مسلم آبادی کی تو انہیں یہ کہہ کر جوان کیا جاتا ہے
تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاوں میں تاجِ سرِ دارا
روس نے اُنیس سو ستر کی دہائی میں افغانستان کا رُخ کیا تو بتایا گیا کہ اُس کا حقیقی حدف گرم پانیوں تک رسائی ہے۔ جب ہماری خوشی سے بے خدا چین کو یہ رسائی حاصل تھی تو روس کے معاملے میں کون سی بات الگ تھی؟ ایک تو یہ کہ وہاں الحاد کا جھنڈا نیا نیا لہرایا گیا تھا اور چین کے بارے میں ہماری معلومات اور یادداشت دونوں کمزور ہیں، دوسرا یہ کہ وہ سرمایہ داری نظام کا عملاً سب سے بڑا دشمن تھا جو سمندر کی گہرائیوں سے لے کر چاند کی غاروں تک اپنے دشمن کا تعاقب بھی کر رہا تھا اور کچھ میدانوں میں سبقت بھی لے گیا تھا جبکہ ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ہم سرمایہ داری نظام کے دُشمن ہیں۔ تیسرے یہ کہ خود افغانستان میں کوئی اسلامی حکومت نہ تھی بلکہ روس ہی کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی جس کی نظریاتی مخالفت ہم نے بحیثیت قوم کبھی نہیں کی تھی۔
آج امریکا کو دُنیا کا سب سے بڑا عفریت بنانے میں ہماری نادانی کو بھی دخل ہے۔ ہم چاہتے تو طاقت کا توازن برقرار رہتا۔ ہم سوچتے تو روس کے ساتھ بہتر تعلقات برقرار رکھتے ہوئے دعوتِ دین اور مکالمے کی فضاء قائم کرتے اور سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کے خلاف متحد ہوتے۔ ہمیں انتخاب یہ کرنا تھا کہ مادے پر سب انسانوں کے تصرف کا حق مانتے ہوئے انکارِ خدا کرنے والے زیادہ بُرے ہیں یا سرمائے کو حاکمیتِ اعلیٰ عطا کرنے والے منافقین زیادہ بُرے ہیں جو سرمائے پر سب انسانوں کےبرابر حق کو تسلیم بھی نہیں کرتے۔
اقتصادی میدان میں روس کو شکست دینے کے لئے امریکا کے لئے ضروری تھا کہ اُسے عالمی منڈیوں کی رسائی نہ حاصل ہو سکے اور قدرتی تیل کے ذخائر سے اُسے دور رکھا جا ئے۔ روس اور امریکا کی چو مکھی لڑائی میں میدانِ جنگ ہر وہ جگہ بنی جہاں وسائل تھے، اہم عالمی منڈی تھی یا اُس کی کوئی گزرگاہ۔
دولت کے لئے برصغیر پر حملہ کرنے کا جواز تو برطانیہ کے یہاں سے جانے کے بعد ختم ہو گیا تھا لیکن ابھی تین باتیں باقی تھیں۔ ایک یہ کہ ہم وسطِ ایشیاء کے ممالک یعنی سوویت یونین اور مشرقِ بعید میں چین کے لئے گرم پانیوں کی گزرگاہ پر بیٹھے تھے اور دوسرے یہ کہ کثیر آبادی اور بھوک کی وجہ سے سستے مزدور بن سکتے تھے۔ مزدوری میں فوجی مزدوری بھی شامل کر لیں تو بعد میں آسانی ہو گی۔ تیسرے یہ کہ اتنی بڑی آبادی جب ترقی یافتہ یورپ کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے گی تو نتیجتاً یورپی مصنوعات کی نقل پر تیار کی گئی غیر معیاری لیکن سستی صنعتی اشیاء کے لئے خود دُنیا کی سب سے بڑی منڈی ثابت ہو گی۔
افغانستان میں روس کی آمد سے پہلے ہی پاکستانی حکمرانوں نے اپنی اقتصادی، عسکری اور اخلاقی کمزوری کے ازالے کے ساتھ معاوضے اور سرمایہ داری نظام کی چمک دمک کے لالچ میں امریکا کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر دور اندیشی سے کوسوں دور رہنے والوں کو یہ خبر نہ تھی کہ میدانِ جنگ افغانستان تک محدود نہیں رہے گا۔ پاکستان دو دہائیوں کے اندر ہی میدانِ جنگ میں تبدیل ہو گیا ۔ فرق یہ تھا کہ روس کی جگہ چین نے لے لی تھی۔ اور وجہ بالکل واضح تھی کہ امریکا کو دور رکھنے کے لئے روس نہیں رہا تھا۔ چین کیونکہ براہِ راست تصادم سے بچ کر چلنے میں پرانا ماہر ہے اِس لئے اُس نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور عسکری امداد کے راستے گوادر کی بندرگاہ بنائی۔ امریکا اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لئے عربوں اور مقامی بلوچ قبائل کی مدد حاصل کرنے اور چینیوں کو پیش قدمی سے باز رکھنے میں کامیاب رہا۔
اگرچہ چین اور امریکہ دونوں اپنے نظریاتی مخالفین کو اپنے اپنے علاقوں میں اظہارِ رائے کی آزادی دینے کو تیار نہیں اور اُن کے سیاسی غلبے کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے میں تاک رہتے ہیں۔ اِس لئے اِن لوگوں کو شدت پسند اور دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ظلم کے ردِعمل کے طور پر اِن مخالفین نے بھی ایسے ہی راستے اختیار کیے ہیں جن پر انسانوں کا اجتماعی ضمیر مطمئن نہیں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اِس نام نہاد جنگ کے معاملےمیں چین اور امریکہ کے درمیان کوئی اُصولی اختلاف نہیں۔ اختلاف محض اُن گروہوں کے معاملے میں ہوتا ہے جن کو کوئی ایک فریق دوسرے کی کمزوری کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
عربوں کے سیاسی مسائل ہوں یا مشرقِ وسطیٰ کی دیگر مسلمان ریاستیں، وسائل اور منڈیوں کی اِس بندر بانٹ میں میدانِ جنگ بن گئی ہیں۔ اگر زیادہ تر مسلمان ممالک کا محل وقوع گرم پانیوں، اہم زمینی اور آبی گزرگاہوں ، تیل اور دیگر معدنی وسائل سے بھرے علاقوں میں نہ ہوتا تو مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے اور مفادات کی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ قرار دینے کا کوئی جواز نہ ہوتا۔
یہ خطہ طویل عرصے سے کسی راہنما کے انتظار میں ہے جو زمینی حقائق اور افراد کی صلاحیتوں سے یکساں واقف ہو۔جسے معلوم ہو کی انسانی گروہ کن بنیادوں پر ترقی کرتے اور کن اُصولوں پراُسے قائم رکھ سکتے ہیں۔ جو جانتا ہو کہ امن قائم کر کے کیسے جیا جا سکتا ہے۔ایک ایسا راہنما جو اپنی جغرافیائی پوزیشن سے مثبت فوائد حاصل کرنا جانتا ہے۔ جس کی نگاہ قدیم تاریخ سے مستقبل بعید تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو فرد اور قوم پر اثرانداز ہونے والے ہر اہم محرک کا طالبِ علم ہو۔
یہ راہنما کسی معجزے سے نہیں بنتے بلکہ انسانوں کی تربیت کے اچھے نظام سے تخلیق ہوتے ہیں۔ غور اِس بات پر کرنا ہے کہ انسانوں کی تربیت کیسے کی جائے کہ وہ اپنوں اور غیروں کے لئے یکساں مفید بن جائیں۔ اِس بات کا فیصلہ کہ کیا ہم اِس خطے کو میدانِ جنگ بنتا رہنے دیں یا نہیں اِس خطے میں بسنے والوں کو کرنا ہے اور اپنے مسیحا کی تخلیق کے لئے پہلا مدرسہ کھولنا ہے۔آج ہمیں راستے کا تعین کرنا ہے اور پہلا قدم اُٹھانا ہے۔ اِس بات پر بے عمل نہیں ہونا کہ ہمیں نتیجے کے لئے مطلوب وقت کا
اندازہ نہیں ہو سکا۔ جو لوگ اِس راستے پر چل نکلیں گے وہی اِس کے تقاضوں سے بہتر انداز میں باخبر ہوں گے۔
ہم جیسا مسیحا چاہتے ہیں ویسا ہی اُس کی تربیت کا بندوبست کریں گے۔ ہمارے سکول اور مدارس اگر ہمارے راہنما بنانے میں ناکام ہیں، ہمارے علماء اور مصلحین اگر دین و اخلاق کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، ہمارے قوانین اور اُن کے نفاذ کے ادارے اگر مجرموں کو روکنے اور اُن کی اصلاح کا فرض نہیں ادا کر سکے اور ہمارے مفکر اگر ذہنوں میں جنم لینے والے قدیم اور تازہ سوالوں کا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ہمیں سوچنا ہے۔ ہمیں کم سے کم یہ اطمینان تو ہو جانا چاہیے کہ ایسے لوگوں کی سرزمین کو میدانِ جنگ اور بالآخر قبرستان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر یہاں انسان زندہ رہے تو اپنی آزاد مرضی سے جینے کا حق کبھی نہیں حاصل کر سکیں گے۔ یہ جانور ہوں گے جن کی جبلتوں کے راستے جو بھی اُن پر کنٹرول حاصل کر لے گا اُسی کے کام آئیں گے اور اگر اور کچھ نہیں تو خوراک اور ایندھن بن جائیں گے۔
ہم کیسا مسیحا چاہتے ہیں۔ ہم نے کبھی سنجیدگی سے اِس کا تعین نہیں کیا۔ آئیے کچھ سوال کرتے ہیں۔ شاید یہ ہماری مدد کر سکیں۔
- کیا ہم ایک قوم ہیں؟
- کیا موجودہ صورتِ حال ہمارے لئے قابلِ قبول ہے؟
- کیا ہم مسیحا کے انتظار میں ہیں؟
- کیا ہم میں مسیحا کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں؟
- کیا کوئی ایک انسان ہمارا مسیحا بن سکتا ہے؟ یا ہمیں اپنی ہر آئندہ نسل میں ہر شعبہ ء زندگی کے لئےمتعدد مسیحا درکار ہیں؟
- کیا یہ مسیحا آسمان سے نازل ہوں گے ؟ یا زمین پر انسانوں کے بنائے گئے کسی نظامِ تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوں گے ؟
- کیا خدا ایسی قوم کی حالت بدلنے میں مدد کرتا ہے جو اپنی حالت بدلنے کے معاملے میں مخلص اور باعمل نہ ہو؟
ہم نے جنگ شروع نہیں کی اور اگر کی ہے تو علم اور عقل کے خلاف۔ ہم نے سوال اُٹھانے والوں کو شک کی نظر سے دیکھا اور بے سوچے سمجھے تقریر کرنے والوں کو کندھوں پر بٹھایا ہے۔ ہم نے جذباتیت کو فہم و فراست پر ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ جس کا جی چاہا اُس نے ہمیں استعمال کیا اور جب چاہا بے وقعتی سے زمیں پر دے مارا۔کچھ لوگ ہماری جذباتیت سے خوفزدہ ہیں اور کچھ اِسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال میں لانا جانتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہمارا نقصان ہوتا ہے۔
یہ سوالات ہمیں سوچنے پر آمادہ کریں گے کہ ہم اپنے مسیحا کی آمد کا محض انتظار کریں یا اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کر کے اُنہیں مستقبل کے مسیحا بنا دیں۔